Tuesday, 20 August 2013

زمینوں کا رکھوالا: پٹواری کی جگہ کمپیوٹر

شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پنجاب حکومت نے پورے صوبے میں زمین کا ریکارڈ کمپوٹرائزڈ کرنے کے لیے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔
پاکستان میں آج بھی کپڑے کے ایک ٹکڑے کے ذریعےزمین کی نشاندہی کا پُرانا نظام رائج ہے۔ پٹواری لٹھا کہلائے جانے والے اس نظام کے تحت پاکستان کے اکثر علاقوں میں زمینوں کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں اس نظام کی موجودگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست بدعنوانی کے مواقع بتائے جاتے ہیں۔
زمینوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹر پر رکھنے کی پالیسی کا آغاز حافظ آباد سے کر دیا گیا ہے جبکہ باقی اضلاع کی زمینوں کا ریکارڈ سنہ دو ہزار چودہ تک کمپوٹرائزڈ کر دیا جائے گا۔
موجودہ نظام کو سمجھنے کے لیے بی بی سی نے ایک پٹواری کے دفتر کا دورہ کیا۔ پٹورای صاحب تو موجود نہیں تھے البتہ اُن کا نجی سٹاف موجود تھا جو لوگوں کو کپڑے کے ٹکڑے کے ذریعے زمین کی نشاندہی کر کے دے رہا تھا اور کچھ فیس بھی وصول کر رہا تھا جو بظاہر سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہونا تھی۔
پٹواری کے نجی سٹاف جس نے پٹوار کا کورس بھی کیا ہوا ہے نے بتایا کہ کپڑے کے ٹکڑے پر کی گئی زمینوں کی نشاندہی کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ نویں گریڈ کا پٹواری جس کی تنخواہ پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ ہے کس طرح تین سے چار ملازم رکھ سکتا ہے۔
راولپنڈی میں تعینات ایک پٹواری نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ تحصیل دار سمیت اعلیٰ سرکاری افسران کی طرف سے اُن سے غیر سرکاری مطالبات کیے جاتے ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے اُن کے پاس لوگوں سے زمینوں کی نشاندہی اور نقل فراہم کرنے کے لیے پیسے لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ مختلف حلقوں میں تعیناتی کے لیے سفارش اور بولیاں لگائی جاتی ہیں اور جو پٹواری صاحبان سیاسی اثرورسوخ کے علاوہ افسران کے غیر ضروری مطالبات تسلیم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اُنہیں اُن حلقوں میں تعینات کیا جاتا ہے جہاں پر زمین کی خریدوفروخت کا کام سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
پٹوار خانے سے زمین کی نشاندہی کروانے کے بعد ریکارڈ آفس سے زمین کی نقل حاصل کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔راولپنڈی کا ریکارڈ روم انگریزوں کے دور میں بنائی گئی عمارت میں موجود ہے۔ ڈیڑھ سو سالہ پُرانی اس عمارت میں زمین کا سولہ سالہ پُرانا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ اس عمارت میں کچھ عرصہ قبل آگ بھی لگ گئی تھی جس سے زمین کا ریکارڈ جل گیا تھا۔ یہاں پر بھی زمین کی نقل حاصل کرنے کے لیے نظرانہ دیا جاتا ہے۔ اس ریکارڈ روم کے انچارج اس کی تردید کرتے ہیں۔
زمینوں کی نشاندہی اور ملکیت کے بارے میں پٹواریوں کے فیصلوں سے متعلق لاکھوں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ نیر شاہ بھی اُن افراد میں شامل ہیں جو پٹواری کے فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں اور مبینہ طور پر اُن کی کروڑوں روپے مالیت کی زمین تنازع کا شکار ہوگئی ہے۔ اس زمین سے متعلق نیر شاہ کا مقدمہ گُزشتہ تیس سال سے عدالت میں زیر سماعت ہے۔
انہی مسائل کے حل کے لیے پنجاب حکومت نے زمینوں کے ریکارڈ کی کمپورائزیشن کا منصوبہ شروع کیا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ سنہ دوہزّار چودہ میں مکمل ہوگا جس سے پٹواریوں کی طاقت کم ہوگی اور لوگوں کوریلیف ملے گا۔ منیب جاوید اس منصوبے پر کام کررہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ صوبے کی تمام زمین کا ریکارڈ کمپوٹرائزڈ کرنا بظاہر مشکل دکھائی دیتا ہے تاہم اُن کا کہنا ہے کہ شفٹوں میں دن رات اس منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس سے بدعنوانی کو روکنے میں مدد ملے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد زمین کے مالک اپنی زمین کا ریکارڈ اُسی طرح دیکھ سکیں گے جس طرح بینک کا کھاتے دار آن لائن کے ذریعے گھر بیٹھے اپنے اکاؤنٹ کی صورت حال دیکھتے ہیں۔